خرد مندوں سے کيا پوچھوں کہ ميری ابتدا کيا ہے
کہ ميں اس فکر ميں رہتا ہوں ، ميری انتہا کيا ہے
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدير سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے ، بتا تيری رضا کيا ہے
مقام گفتگو کيا ہے اگر ميں کيميا گرہوں
يہی سوز نفس ہے ، اور ميری کيميا کيا ہے
نظر آئيں مجھے تقدير کی گہرائياں اس ميں
نہ پوچھ اے ہم نشيں مجھ سے وہ چشم سرمہ سا کيا ہے
اگر ہوتا وہ مجذوب فرنگی اس زمانے ميں
تو اقبال اس کو سمجھاتا مقام کبريا کيا ہے
نواے صبح گاہی نے جگر خوں کر ديا ميرا
خدايا جس خطا کی يہ سزا ہے ، وہ خطا کيا ہے
No comments:
Post a Comment